حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید عقیل الغروی نے مسجد ایرانیان(ممبئی) میں عشرۂ مجالس کی آٹھویں شب کی مجلس شعرائے کرام کو خطاب کرتے ہوئے کہا: آقا حسینؑ کی مدح کریں، سلام کہیں ، منقبت کہیں، نوحہ کہیں، مرثیہ کہیں، سب کہیے منع نہیں کرتا ، ڈسکریج(حوصلہ شکنی ) نہیں کرتا مگر حوصلہ افزائی کے معنیٰ یہی ہیں کہ جو صحیح راستہ ہے وہ دِکھا دِیا جائے ورنہ تو ’ واہ واہ، سبحان اللہ۔۔۔ واہ میاں واہ۔۔۔ شاباش شاباش۔۔۔ یہ عمل خیانت ہے، یہ دھوکہ ہے، یہ عمل مبتدی نوجوان کی صلاحیت کو کو برباد کر نے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا:اس مجلس میں صاحبِ منبر نے شعرا اور علما کو ایک سبق یہ بھی دِیا کہ وہ نثر میں ذاکری کریں یا شعر میں، مجمع اسے قبول کرتا ہے یا نہیں بلکہ یہ ملحوظ رہے کہ ’’ مولا‘‘ اسے قبول کریں گے یا نہیں ۔!! یہ پوری ہستی میں پستی اور بلندی کی جو جیومیٹری ہے وہ بہت عجیب و غریب ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی جیومیٹری کا کون مقابلہ کر سکتا ہے۔ آپ اگر خلا میں سفر کریں تو حیرت ہوگی اور پھر اندازہ ہوگا خداوندِ قدوس کے جمال کا ، کمال کا، قدرت کا ،جب آپ خلا میں سفر کریں گے، کہیں پستی نظر ہی نہیں آئے گی،آپ کا سفر ہوگا بلندیوں سے بلندیوں تک۔
مولانا موصوف ایک نکتۂ ایمان یہ بھی بتا گئے کہ’ خداکی خدائی میں جو غور و فکرکرے وہ کبھی سرنِگوں نہیں ہوتا وہ سدا سرفراز رہتا ہے، انہوں نے کہا: مجلس ِ عزا کے تین مرحلے ہیں، مسائل، فضائل اور مصائب، اور ان کی ترتیب بھی ملحوظ رکھی جاتی ہے مگر مولانا عقیل الغروی کے بیان کی ایک خوبی یہ بھی محسوس ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی مرحلے میں مصائبِ خفی بیان کر جاتے ہیں۔ آج کی مجلس کے اس جملے پر توجہ فرمائیں:’’ اللہ سے جُڑے رہوگے تو نظر بھی بلند رہے گی اور سَر بھی بلند رہے گا او رکوئی خدا دشمن تمہیں قتل بھی کر دے تو خود مجبور ہوگا کہ(تمہارے)سَر کو نیزے پر بلند رکھے۔‘‘
مولانا نے کہا: خدا کی کریمی اور رزاقی کا بھی ایک نکتہ صاحب ِمنبر نے بیا ن کیا کہ ہر حیوان کو زمین پربعد میں بھیجا جاتا ہے اس کا رزق پہلے بھیج دیا جاتا ہے۔ یہاں اگر واقعتاً ہم آپس میں منصفانہ اور عادلانہ تقسیم ِرزق رکھیں تو ایک بھی فرد بھوکا سو نہیں سکتا مگر ہردَور میں کہیں فرعون کہیں کوئی شیطانِ بزرگ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ انسانیت کا سب سے بڑا دشمن جو سب سے بڑا عنصر ہے وہ کیپلٹزم (سرمایہ داری) اور خصوصیت کے ساتھ مغربی سرمایہ داری۔ یہ سیاسی گفتگو نہیں یہ مسئلہ ہے انسانیت کا ،یہ درد ہے انسانیت کا۔ لہٰذا(لوگوں میں) شعور بیدار کیجیے ،اقتصادی شعور،سیاسی شعور، مذہبی شعور بیدارکیجیے کہ ایسا نہ ہو کہ کیپلسٹوں ( سرمایہ داروں) کے ہاتھوں بِکے ہوئے (نام نہاد ) علما بھی آپ کو دھوکا دے جائیں۔ مَیں نعوذ باللہ یہاں تاریخ کے صفحات سے قصّے کہانیاں نقل کر کے، یا لوریاں سنا کے آپ کو سلانے نہیں آیا۔ آپ کے ذہنو ں میں بڑ ی قوت ہے ،بڑی تابکاری ہے اسے بیدار کیجیے۔
انہوں نے کہا: ہمیں ایسا سماج تیارکرنا ہے جس میں فتنہ ہو نہ فساد ہو، گندگی نہ ہو، کثافت نہ ہو، نہ سڑکوں میں گندگی نظرآئے اور نہ ذہنوں میں۔ رشتوں میں محبتیں ہو ں نفرتیں نہ ہوں۔فرش عزا سے اٹھنے کے بعد کوئی جائے اور وہ اپنے بھائی کو نفرت کی نظر سے دیکھے تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس نے مجلس کا تبرک ِعرفان حاصل نہیں کیا ۔ زوال امت پر کلام کرتے ہوئے مولانا موصوف نے بتایا کہ’ کہا جاتا ہے کہ اُمت نےقرآن چھوڑ دیا تو امت زوال کا شکارہو گئی‘ مگر حضرت! یہ بھی تو بتائیےکہ قرآن سے اُمت کو دین سے کاٹا کس نے؟ جھوٹے علما نے ۔
انہوں نے مزید کہا: اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ میں منبر سے جو کہوں گا وہی تو سننے والوں کے دلوں پر نقش ہوگا۔ اگر میں یہ بتاؤں کہ عزا داریٔ سید الشہدا کی روح ہےبے دینی سے جہاد ،تو آپ کو یہ یاد رہے گا اور اگر میں یہ کہوں کہ تم کتنی ہی بےدینی کرتے رہو بس ایک آنسو بہا لو تو پاک ہوجاؤگے، تو اس کا (زندگی پر)کیا اثر ہوگابے شک یہ آنسو جنت کی قیمت ہے ، اخلاص کے ساتھ ، عشق کے ساتھ ایک قطرۂ اشک اتنا قیمتی ہے کہ ایک نہیں ہزارہا جنت اس سے خرید لی جائیں مگر شرط ہے اخلاص ، محبت،مودّت، معرفت ، جذبۂ وفا اور جذبۂ اطاعت نہ کہ تجارت، نہ کہ سخن فروشی ،فریب، سیاست،دغا۔ یہ عزا داری قوت ہے اگرعزادار صحیح معنیٰ میں عزادری کرے تو دُنیا کے تمام مسائل اس عزاداری سے حل ہوجائیں۔